Shab e barat Known as “the night of forgiveness”, this special occasion is a time for Muslims to reflect and seek Allah’s mercy for all their sins. People typically fast during this period or gather with family and friends at mosques across the world, begging for forgiveness from Allah SWT (Subhanahu Wa Ta’ala). With its deep spiritual significance, it’s no wonder that Shab-e-barat has become such an important part of Islam.
Shab e Barat 2024 Date & Detail
Arab Countries & Followed Regions
Event | Shab e Barat |
---|---|
Date | Evening of 24 February, 2024 |
Hijri Date | 15 Shaban 1445 AH |
Pakistan, India & Followed Countries
Event | Shab e Barat |
---|---|
Date | Evening of 25 February, 2024 |
Hijri Date | 15 Shaban 1444 AH |
Shab e barat Full Detail
Shab-E-Barat 2023 is an important Islamic festival celebrated to commemorate the night when Allah Almighty records the fate of all people for the coming year. It is believed that on this day, Allah’s mercy and compassion is unlimited and prayers are said to be answered generously. People from different faiths join together to celebrate this occasion with great enthusiasm and joy.
The celebration of Shab-E-Barat usually starts with the exchange of sweets among family members and close friends, followed by a special prayer that is conducted in all mosques. To mark this special occasion, people fast during the day and then at night they gather together for an elaborate dinner which includes traditional dishes and sweets.
In many parts of the world, this occasion is also celebrated with fireworks and late-night processions. In some parts of India, people believe that the night is best spent in a mosque as God forgives all sins and grants good luck to those who spend time there.
شب برات کی حقیقت
شعبان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ اور اس ماہ میں ایک مبارک رات آنے والی ہے، جس کا نام ”شب برات ہے۔ چونکہ اس رات کے بارے میں بعض حضرات کا خیال یہ ہے کہ اس رات کی کوئی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ اور اس رات میں جاگنا ، اور اس رات میں عبادت کو خصوصی طور پر باعث اجر و ثواب سمجھنا بے بنیاد ہے، بلکہ بعض حضرات نے اس رات میں عبادت کو بدعت سے بھی تعبیر کیا ہے، اس لیے لوگوں کے ذہنوں میں اس رات کے بارے میں مختلف سوالات پیدا ہور ہے ہیں۔ اس لیے اس کے بارے میں کچھ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوا۔
:کوئی خاص عبادت مقرر نہیں
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقہ سے عبادت کی جائے۔ جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہ دیا کہ شب برات مین اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے مثلاً پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے ۔ دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے بلکہ نفلی عبادات جس قدر ہو سکے ، وہ اس رات میں انجام دی جائے نفلی نما پڑھیں قرآن کریم کی تلاوت کریں۔ ذکر کریں۔ تسبیح پڑھیں ۔ دعائیں کریں یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں، لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
:شب برات اور خیر القرون
اُمت مسلمہ کے جو خیر القرون ہیں، یعنی صحابہ کرام کا دور، تابعین کا دور، تبع تابعین کا دور، اس میں بھی رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ لوگ اس رات کے نادر عبادت کا خصوصی اہتمام کر رہے ہیں۔ لہذا اس کو بدعت کہنا، یا بے نیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے۔ اس رات میں جاگنا، اس میں عبادت کرنا باعث اجر وثواب ہے، اور اس کی خصوصی اہمیت ہے۔
نصف شعبان کی رات اور مختلف رسومات
:قبر پر لکڑی گاڑنا
قبر پر لکڑی گاڑ کر مردے کے حسب حال کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اس سے باتیں کی جاتی ہیں، دعائیں اور گریہ وزاری کی جاتی ہے۔ ان اعمال کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
:چراغاں و آتش بازی
گھروں ، چھتوں، مسجدوں، درختوں اور قبرستانوں وغیرہ پر چراغاں کرنا، قندیلیں روشن کرنا، پٹانے چھوڑنا ، آتش بازی کرنا اور پوری رات اس کھیل تماشے کے ساتھ جاگ کر گزارنا ، نصف شعبان کی رات میں ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ ہندوؤں کی دیوالی ، مجوسیوں کی آتش پرستی کی نقل کے سوا کچھ نہیں ہے، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے غیر مسلم اقوام کی مشابہت سے سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ( سَتَن أَبِي دَاوُدَ )
” جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔“
اس رات کی فضیلت بے بنیاد نہیں۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ شب برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیم اجمعین سے احادیث مروی ہیں ، جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی ، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں ، اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محمد ثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تائید بہت سی احادیث سے ہو جائے تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے ، اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بالکل غلط ہے۔
:اس رات میں قبرستان جانا
اس رات میں ایک اور عمل ہے ، جو ایک روایت سے ثابت ہے ، وہ یہ کہ حضور نبی کریم سے جنت البقیع میں تشریف لے گئے ۔ اب چونکہ حضور اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے ۔ اس لیے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برات میں قبرستان جائیں ۔ لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے۔ ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم ہے سے جس درجے میں ثابت ہو ، اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہیے۔ اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ لہذا ساری حیات طیبہ میں رسول کریم والے سے ایک مرتبہ جنت البقیع جانا مروی ہے، کہ آپ شب برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے، اسلیے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاؤ تو ٹھیک ہے۔ لیکن شب برات مین جانے کا اہتمام کرنا۔ التزام کرنا، اور اس کو ضروری سمجھنا، اور اس کو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اس کو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔ لہذا اگر کبھی کوئی شخص اس نقطہ نظر سے قبرستان چلا گیا کہ حضور نبی کریم یہ تشریف لے گئے تھے، میں بھی آپ کی اتباع میں جار ہا ہوں تو انشاء اللہ اجر و ثواب ملے گا، لیکن اس کے ساتھ یہ کرو کہ کبھی نہ بھی جاؤ لہذا اہتمام اور التزام نہ کرو، پابندی نہ کرو، یہ در حقیقت دین کی سمجھ کی بات ہے۔ کہ جو چیز جس درجہ میں ثابت ہو ، اس کو اسی درجہ میں رکھو، اس سے آگے مت بڑھاؤ۔ اور اس کے علاوہ دوسری نفل عبادت ادا کر لو۔
:نوافل گھر پر ادا کریں
میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس رات میں اور شب قدر میں نفلوں کی جماعت کرتے ہیں، پہلے صرف شینہ باجماعت ہوتا تھا، اب سناہ یکہ صلوۃ التسبیح کی بھی جماعت ہونے لگی ہے، یہ صلوۃ التسبیح کی جماعت کسی طرح بھی ثابت نہیں ، نا جائز ہے فرض نماز کے علاوہ اور ان نمازوں کے علاوہ جو حضور اقدس ﷺ سے باجماعت ادا کرنا ثابت ہیں، مثلا! تراویح ، کسوف اور استسقاء کی نماز ان کے علاوہ ہر نماز کے بارے میں افضل یہ ہے کہ نماز اپنے گھر میں ادا کرے،
صرف فرض نماز کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر صرف افضل نہیں ، بلکہ سنت موکدہ قریب بواجب ہے کہ اس کو مسجد میں جا کر جماعت سے ادا کرے۔ لیکن سنت اور نفل میں اصل قاعدہ یہ ہے کہ انسان اپنے گھر میں ادا کرے۔ لیکن جب فقہاء نے یہ دیکھا کہ لوگ گھر جا کر بعض اوقات سنتوں کو ترک کر دیتے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے یہ بھی فرما دیا۔ کہ اگر سنتیں چھوٹنے کا خوف ہو تو مسجد ہی میں پڑھ لیا کریں۔ تا کہ چھوٹ نہ جائیں ، ورنہ اصل قاعدہ ہی ہے کہ گھر میں جا کر ادا کریں اور نفل کے بارے میں تمام فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ نفل نماز میں افضل یہ ہے کہ اپنے گھر میں ادا کرے، اور نفلوں کی جماعت حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی اور نا جائز ہے اور اگر جماعت سے نفل پڑھ لئے تو ثواب تو کیا ملے گا۔ الٹا گناہ ملے گا۔
:پندرہ شعبان کا روزہ
ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کا ہے اس کو بھی سمجھ لینا چاہیئے وہ یہ کہ سارے ذکر یہ حدیث میں اس دن کے روزے کے بارے میں ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھو۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے لہذا اس روایت کی وجہ سے خاص اس پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں۔ البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضلیت ثابت ہے۔
یعنی یکم شعبان سے ستائیس شعبان کو روزہ رکھنے کی فضلیت ثابت ہے یعنی یکم شعبا سے ستائیس شعبان کو روازہ رکھنے کی فضلیت ثابت ہے لیکن ۲۸ اور ۲۹ شعبان کو حضور ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ رمضان سے ایک دور روز پہلے روزہ مت رکھو۔ تا کہ رمضان کے روزوں کے انسان نشاط کے ساتھ تیار رہے، لیکن یکم شعبان سے ۲۷ شعبان تک ہر دن روزہ رکھنے میں فضلیت ہے دوسرے یہ کہ پندرہ دن تاریخ ایام بیض میں سے بھی ہے اور حضور ﷺ اکثر ہر ماہ کے ایام بیض میں تین دن روزہ رکھا کرتے تھے یعنی ۱۴۰۱۳ اور ۱۵ تاریخ کو لہذا اگر کوئی شخص ان دو وجہ سے ۱۵ تاریخ کا روزہ رکھے ایک اس وجہ سے کہ یہ شعبان کا دن ہے دوسرے اس وجہ سے ۱۵ تاریخ کا روزہ رکھے، ایک اس وجہ سے کہ یہ شعبان کا دن ہے دوسرے اس وجہ سے کہ یہ ۱۵ تاریخ ایام بیض میں داخل ہے اگر اس نیت سے روزہ رکھ لے تو انشاء اللہ موجب اجر ہوگا۔
لیکن خاص پندرہ تاریخ کی خصوصیت کے لحاظ سے اس روزے کو سنت قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں۔ اسی وجہ سے اکثر فقہاء کرام نے جہاں مستحب قرار دینا بعض علماء کے نزدیک درست نہیں۔ اسی وجہ سے اکثر فقہاء کرام نے جہاں مستحب روزوں کا ذکر کیا ہے وہاں محرم کی دس تریخ کے روزے کا ذکر کیا ہے یوم عرفہ کے روزے کا ذکر کیا ہے لیکن پندرہ شعبان کے روزے کا علیحدہ